بس بہت ہوگیا۔۔۔اور کیا کرتا؟
نئے لوگ مجھے اچھے لگتے ہیں
اجنبی راستے مجھے جانتے ہیں۔میں قدیم تہذیبوں کا باشندہ ہوں.
صحراوں اور جنگلوں کا رند ہوں۔ آبشار، وادیوں کا مرید اور سمندروں کا اسیر ہوں۔لیکن بقول غالب فکر دنیا میں سر گھپاتا ہوں۔۔۔
اب وقت ہی نہیں ملتا۔
یادوں کی بندوق چلی!
پھر سوچا آغاز تو کروں!
بس اپنا بیگ اٹھایا اور داتا دربار سے سلام کرتا ہوا سیدھا شاہی قلعہ میں اپنی شاہی سواری کو بریک لگائی۔جیسے ہی میں نے اپنے آپ کو بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے درمیان پایا۔۔۔تو یوں محسوس ہوا کہ وقت جیسے رک گیا ہو۔۔۔ایک عجیب سا سکون۔۔۔تھا۔۔۔۔یہ ماحول میری لئے نیا نہیں تھا۔ میں نے کالج کے کئی دن قلعہ کی دیواروں سے سرگوشیاں کرتے اور مینار پاکستان کو تکتے گزارے تھے۔لیکن وہ پہلے جیسا چس اب نہیں رہا۔۔۔ گاڑیوں کہ شور کے ساتھ ساتھ، جگہ جگہ سکیورٹی اور کرونا سوپس کی وجہ سے رکاوٹوں نے پہلے جیسا چس ختم کر دیا ہے۔
قلعہ کے در و دیوار سے ہم کلامی کے بعد پرانی گلیوں اور محلوں سے ہوتا ہوا۔۔۔ انار کلی پہنچا۔۔۔جہاں کی سڑکوں سے پرانی یادوں کی طرح پرانی کتابیں اکٹھی کیں۔ایک وقت تھا جب ہر اتوار بلا ناغہ انار کلی کی آغوش میں گزرتی تھی۔ انار کلی کی سڑکوں اور گلیات سےپرانی کتابیں انمول موتیوں کی طرح لیکر پڑھتے تھے۔۔۔۔ اب وہ وقت بھی جاتا رہا۔
ماضی کی یادوں کے مزے لیتے لیتے۔۔۔پتہ نہیں چلا کب شام ہوگئی۔۔۔پھرآہستہ آہستہ گھر کی راہ لی۔۔۔دن بڑے مزے میں گزارا۔۔۔ویسے تو روز ہی گزارتا ہوں لیکن آج آپنے آپ کے ساتھ گزارا۔